ایک دفعہ کا ذکرہے کہ ایک گاؤں میں احمد نامی کسان اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔
وہ انتہائی محنتی اور جفا کش تھا۔اس کا گاؤں میں ایک چھوٹا سا فارم تھا جس پر فصلیں
اگا کر وہ اپنی گزر بسرکرتا تھا۔
اسکی اور اسکے خاندان کی خوشحالی کا انحصار اسی کھیت سے اگنے والی فصلوں پر تھا۔
احمد اپنے کام سے مطمین تھا اور اپنے گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی وقت گزار رہا تھا۔
کہ اچانک وقت نے پلٹا کھایا۔ہر سال کی طرح اس سال بھی
احمد نے اپنے کھیت میں بیج بوئے ہوئے تھے
اور وہ اس انتظار میں تھا کہ بارش ہو گی اور اسکی فصل ہری بھری ہو جائے گی
وہ اپنی شریک حیات سے بھی
اکثر یہ ذکر کرتا رہتا تھا کہ اگر اس دفعہ وقت پر بارش ہو گئی تو ہمارا کھیت ہرا بھرا ہو جائیگا
اور ہم پورا سال سکون سے بسر کر سکیں گے۔ہر روز بارش کے انتطار میں احمد صبح سے شام تک آسمان
کو دیکھتا رہتااور دعائیں کرتا رہتا مگر ابر رحمت اس سال نہ برسااوربارش کی امید میں
کسانوں کی امیدیں دم توڑنے لگیں۔سب کسانوں کی فصلیں تباہ ہو گئیں۔احمد کا کھیت بھی بنجر ہو گیا۔
احمد بے حد پریشان تھا کیونکہ کھیت میں فصل اگانے کے لئے وہ قرض لے چکا تھا
جسکو چکانے کے لئے اب اس کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔
اس حالت میں اسے پریشان دیکھ کر اس کی بیوی نے اسے مشورہ دیاکہ تم گاوں چھوڑکر شہر
چلے جا واور وہاں کوئی نوکری تلاش کرو تاکہ ہمارا گزر بسر ہو سکے۔اور ہم قرضہ بھی اتار سکیں۔
اسکی بیوی نے اسے برے وقت کے لئے بچائی ہوئی کچھ رقم دی
تاکہ وہ شہر جا سکے اورنوکری تلاش کر سکے۔
احمد وہ رقم اپنے بیگ میں رکھ لیتا ہے اورشہرکی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔
شہر پہنچ کر وہ سارا دن نوکری کی تلاش میں پھرتا ہے مگر اسے کہیں نوکری نہیں ملتی
تھک ہار کر وہ ایک باغ میں آرام کرنے بیٹھ جاتا ہے۔اسی باغ میں دو جیب کترے بیٹھے ہوتے ہیں۔
اسے دیکھ کرایک جیب کترا دوسرے سے کہنے لگتا ہے کہ لگتا ہے کہ اس چھورے کے پاس کافی مال ہے
اور آج ہمارے وارے نیارے ہونے والے ہیں دوسرا کہنے لگا میں اسے باتوں میں لگاتا ہوں تم اسکا بیگ اٹھا لو۔
وہ جیب کترے اس کے پاس آکر اسے کہتے ہیں ارے سرمد بابوآپ کیسے ہیں؟
آپ کتنے عرصے بعد نظر آئے۔ احمد کہنے لگتاہیمیں سرمد نہیں احمد ہوں اور تم کون ہو؟میں تو تمہیں نہیں جانتا۔
جیب کترا بولتا ہے میں تمھارانام بھول گیا اور بتاو تم کیسے ہو؟
احمد کہنے لگتا ہے میں کام کی تلاش مین گاوں سے شہر آیا ہوں مگر مجھے کوئی کام نہیں مل رہا۔
اگرآپ مجھے جانتے ہیں تو مجھے کوئی کام بتا دیں۔
اسی گفتگو کے دوران دوسرا جیب کترا اپنا کام کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
اور احمد کا بیگ لے کر وہاں سے نو دو گیارہ ہو جاتا ہے۔
پہلا جیب کترا کہتا ہے ارے بھائی لگتا ہے پہچاننے میں کوئی غلطی ہو گئی مجھے جانے دو
احمد دل ہی دل میں سوچتا ہیکہ یہ شہر کے لوگ بھی عجیب ہیں پہلے جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
اس دوران احمد کو اپنے بیگ کا خیال آتا ہے جب وہ دیکھتا ہے تو اسکا بیگ وہاں نہیں ہوتا
اسے انتہائی تکلیف پہنچتی ہیکہ شہر کے لوگ اسقدر دھوکہ باز ہیں۔وہ رو رو کر اللہ سے دعا کرنے لگتا ہے
کہ اب وہ ہی اسکی مدد کرے۔ اسی دوران اسے اپنے پیچھے سے بچاو بچاو کی آوازسنائی دیتی ہے
جب وہ پیچھے دیکھتا ہے تو ایک شخص کو شدید ذخمی حالت میں پاتا ہے جو احمد کے وہاں پہنچنے تک بے ہوش ہو چکا ہوتا ہے۔
احمد اسے کندھے پر اٹھاتا ہے اور نزدیکی ہسپتال پہنچادیتا ہے۔
ہسپتال میں وہ ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ یہ زخمی حالت میں ملا ہے اسکا جلد از جلد علاج شروع کریں۔
مگر ڈاکٹر بغیر پیسوں کے اسکا علاج کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو احمد اس شخص کی جیب سے
گرا ہوا پرس ڈاکٹر کو دیکھاتا ہے پرس سے اسکا شناختی کارڈ اور کریڈٹ کارڈ ملتا ہے۔
ڈاکٹر احمد سے کہتا ہے کہ اچھا ہے کہ تم اسے ہسپتال لے آئے تمھیں پتا ہے یہ شہر کا امیر ترین
شخص ہے ڈ اکٹر اسکا علاج شروع کر دیتا ہے۔احمد سے باربارڈاکٹراسکی طبیعت کے بارے میں
پوچھتا ہے بالآخر ڈاکٹر اسکی زندگی بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور احمد سے کہتے ہیں
کہ اسے صبح تک ہوش آجائے گا۔ساری رات احمد ہسپتال میں ٹہلتے ہوئے اوردعائیں
کرتے ہوئے گزار دیتا ہے۔صبح اس زخمی کو ہوش اانے پر ڈاکٹر احمدکواس سے ملواتے ہیں کہ
یہی وہ شخص ہے جس نے آپکی جان بچائی۔ زخمیاحمد سے پوچھتا ہے کہ تم کون ہو اور کیا کرتے ہو؟
احمد کہتا ہے کہ میں گاوں سے شہر آیا تھا نوکری کی تلاش میں لیکن مجھے کوئی کام نہیں ملا۔
اوپر سے میرا بیگ جس میں میری جمع پونجی تھیوہ بھی کوئی اٹھا کر لے گیا۔
زخمی شخص جس کا نام عمران ہوتا ہے وہ انتہائی حیران ہوتا ہے کہ اتنی پریشانی کے باوجود اس شخص
نے میری مدد کی اور مجھے وقت پر ہسپتال پہنچایا۔عمران احمد سے کہتا ہے کہ مجھے بڑی خوشی ہوئی
کہ آج کل کے دور میں بھی آپ جیسے مخلص اور ایماندارانسان موجود ہیں۔
تم کل میرے گھر آجانا میں تمھیں نوکری دلاوں گا۔
احمد اگلے دن عمران کے بتائے ہوئے پتے پر اسکے گھر پہنچ جاتا ہے۔
اسکا گھر کسی محل سے کم نہیں ہوتااور وہاں بڑی بڑی گاڑیاں قطار میں کھڑی ہوتی ہیں،
ملازم نے احمد کو ڈرائنگ روم میں بٹھایاعمران احمد سے ملنے آتا ہے ا سے انتہائی عزت سے
اپنے ساتھ کھانا کھلاتا ہے اور پھر اسے بتاتا ہے کہ شہر کے باہرمیری ایک بہت بڑی فیکٹری ہے
جس میں زرعی مصنوعات بنتی ہیں میں تمھیں وہاں کام دے سکتا ہوں۔
احمد کہتا ہے میرا تعلق زراعت سے ہی ہے یہ کام میں بخوبی کر سکتا ہوں۔
عمران صاحب احمد کو رہنے کے لئے گھر اور گاڑی بھی دیتے ہیں اور کچھ رقم دے کر گاؤں بجھوا دیتے ہیں
تاکہ وہ اپنا قرض بھی اتار سکے اوراپنے بیوی بچوں کو بھی شہر لے آئے۔
احمد کے دونوں بچوں کی پڑھائی کا خرچ بھی عمران اپنے ذمہ اٹھاتا ہے۔
احمد محنت سے اور وفا داری سے عمران کے ساتھ کام کرتا ہے اور ہنسی خوشی
اپنے خاندان کے ساتھ رہنے لگتا ہے۔
سچ ہے کہ کسی کے ساتھ کی گئی نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔؟